میں بیوٹی پارلر میں تھی کہ کچھ عورتیں میرے پاس آئیں اور کہا کہ ہماری بی بی کی شادی ہے اور انہیں میک اپ کروانا ہے ،


یہ آج سے چار سال پرانی ہے۔ رمضان المبارک کا ہی مہینہ تھا ۔ مین جس قصبے میں رہتی ہوں یہ گجرات سے صرف چند کلومیٹر دور ہے ۔میں نے ایف اے کے بعد بیوٹی پارلر کا کورس کیا اور قصبہ میں ایک دوکان لیکر اس میں پارلر چلانے لگی۔اللہ نے مجھے ایسا ہنر عطا فرمایا تھا کہ میرے ہاتھوں سے تیار ہونے والی دلہن ہمیشہ اس پر ناز کیا کرتی تھی اور لوگ دوردور سے میک اپ کرانے میرے پاس ہی آتے تھے۔
میں آپ کو بتا دوں کہ یہ پارلر سڑک سے ذرا ہٹ کر تھا اور پانچ سو میٹر دوری پر قصبہ کا قبرستان واقع تھا۔ میری یہ عادت تھی کہ جب بھی قبرستان کے قریب سے گذرنا ہوتا میں اہل قبرستان کو سلام کہتی اور انکی مغفرت کے لئے دعا کرتی تھی اور یہ معمول جہاں تک مجھے یاد ہے پچھلے ایک سال سے بنا تھا ۔میں رمضان المبارک کا سارا مہینہ گھر میں رہتی اورپارلر بند کردیتی تھی ۔صرف ہفتہ میں ایک دن صفائی وغیرہ کے لئے پارلر جاتی تھی۔
اس روز میں نے آٹھ پہر کا روزہ رکھا تھا اور میں بیوٹی پارلر چلی گئی۔ سہ پہر کا وقت تھا ۔میں نے صفائی کی اور پھر مجھے تھکان محسوس ہوئی تو میں اے سی لگا کر صوفہ پر لیٹ گئی اور سوچا کہ کچھ دیر آرام کرکے چلی جاتی ہوں۔جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے۔کچھ ہی دیر گزری تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی ۔میں اٹھ کر باہر نکلی تو باہر دو انجان خواتین کھڑی تھیں۔
’’ جی فرمائیں‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ ہم نے اپنی بی بی کا میک اپ کروانا ہے‘‘ ایک خاتون بولی ،اس نے ہلکا سا نقاب لیا تھا ۔جثے والی اور خوشحال دکھائی دیتی تھی۔
’’ مگر میں تو رمضان میں پارلر بند رکھتی ہوں ،اور ویسے بھی اب شام ہونے والی ہے ،روزہ کھلنے میں کچھ ہی وقت بچا ہے۔میں گھر جارہی ہوں ‘‘ میں نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا
’’ ہم جانتی ہیں لیکن ہماری بی بی بضد ہے کہ وہ آپ سے ہی میک اپ کروائے گی۔آج اسکا نکاح ہے اور وقت بہت کم رہ گیا ہے۔اگر آپ ہمارے ساتھ چلی چلیں تو آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔‘‘ دوسری خاتون نے اسقدر لجاجت آمیز انداز میں کہا کہ میں سوچ میں پڑگئی۔
’’ویسے آپ کو پہلے کبھی نہیں دیکھا‘‘ میں نے کہا’’ کہاں رہتی ہیں آپ؟‘‘
’’ اُدھر،‘‘ اس نے قبرستان کی جانب اشارہ کیا
قبرستان کے آس پاس کافی مکانات تھے اور دو تین بڑی کوٹھیاں بھی تھیں ۔میں نے سوچا کہ نکاح کا میک اپ زیادہ وقت نہیں لے گااور ابھی کچھ وقت ہے ،چلی جاتی ہوں اتنے پیاراور امید سے کہہ رہی ہیں ۔
میں نے سامان اکٹھا کیا اور باہر نکلی تو اس دوران ایک تانگہ وہاں آ کھڑا ہوا۔بہت ہی سجا سنورا تھا۔سیاہ گھوڑا جتا ہوا تھا ۔وہ دونوں تانگیں میں بیٹھنے لگیں تو میں نے کہا’’ ادھر ہی تو جانا ہے ،پیدل چلے چلتے ہیں‘‘
’’ کوئی بات نہیں ،یہ بھی ہماری رسم ہی سمجھیں ،اپنے مہمانوں کو ہم پیدل نہیں چلاتے‘‘
میں انکے ساتھ تانگے میں سوار ہوئی تو تانگہ تیزی سے واپس مڑااور پھر انتہائی تیزی سے دوڑنے لگا ۔مجھے صاف دکھائی دے رہا تھا کہ تانگہ زمیں پر نہیں آسماں پر اڑ رہا ہے۔میں پریشان ہوگئی اور تقریباً چلاتے ہوئے بولی’’ یہ کیا کررہے ہیں ۔مجھے کہاں لے جارہے ہیں‘‘
دونوں خواتین مسکرادیں ۔کوچوان نے بھی پلٹ کر میری جانب دیکھا اور بولا’’ بہن آپ محفوظ ہیں ۔گھبرائیں نہیں ،ہم جنات ہیں اور ہم سب آپ کا بے حد احترام کرتے ہیں‘‘
’’ کک کک کیا جن ۔۔۔جنات‘‘ میرا گلا خشک ہوگیا۔آنکھیں پھٹ گئی۔جسم پر لرزہ طاری ہوگیا۔
کچھ ہی دیر میں وہ تانگہ ایک بڑی سے بستی میں داخل ہوا ۔وہاں ایک بڑا سا خیمہ نصب تھا جہاں بہت سے لوگ بنے سنورے گھوم پھر رہے اور کھانے اڑا رہے تھے۔بڑی مسحور کن خوشبوئیں پوری فضا میں گھلی ہوئی تھی۔
کچھ ہی دیر بعد وہ مجھ حواس باختہ کو لئے ایک چھوٹے سے خیمہ میں لے گئے جہاں کافی ساری لڑکیاں ایک لڑکی کو گھیرے بیٹھی تھیں۔مجھے دیکھتے ہی سب جلدی سے باہر نکل گئیں تو دونوں خواتین نے جھک کر اس لڑکی کو سلام کیا اور کہا’’ بی بی جان ہم لے آئے ہیں ان کو ‘‘
خدا پناہ ۔۔۔ جب اس لڑکی نے میری جانب دیکھا تو اسکے دیکھ کر دنگ رہ گئی۔اس کے نین نقش بڑے خوبصورت تھے،رنگ سانولا تھا۔ خیر میرے پاس کوئی اور چوائس نہیں تھی لہذا میں نے اسکا میک اپ کیااور اسکی ہر فرمائش کو پورا کیا۔خاص طور پر اسکی باڈی ویکس کر تے ہوئے تو مجھے پسینے چھوٹ گئے تھے۔اسکے پیٹ اور رانوں پر گھنے بال تھے ۔اسے دلہن بنا کر میں نڈھال ہوگئی تو اس کی ہم جولیاں بھی آگئیں اور لگی فرمائشیں کرنے کہ دلہن کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی تیار کردو۔یہ سب کر میری تو جان نکل گئی اور میں نے بے چارگی سے دلہن کی طرف دیکھا تو اس نے سب کو دانٹ دیا’’ آج صرف میرا میک اپ ہونا تھا اور بس۔تم اپنی شادی پر اسکو بلالینا‘‘ دلہن نے میک اپ کرانے کے بعد معاوضہ پوچھا تو میں نے لینے سے انکار کردیا تو اس نے مجھے اپنی انگلی سے ہیرے کی ایک انگوٹھی اتار کردی اور کہا ’’ یہ تحفہ سمجھ کر رکھ لو‘‘
میں آپ کو کیسے بتاؤں کہ واپسی پر جب وہ دونوں خواتین مجھے اسی تانگہ پر چھوڑ کر واپس جارہی تھیں تو سورج ہنوز اسی جگہ پر کھڑا تھا ۔کوئی پہر بدلا نہیں لگ رہا تھا،یوں لگ رہا تھا جیسے وقت ساکت ہوگیا تھا۔میں جب بھی ہیرے کی انگوٹھی کو دیکھتی ہوں تو مجھے یہ غیر حقیقی مگر سچا واقعہ یادآجاتاہے ۔اور اب میں رمضان کے مہینہ میں پارلر کی صٖفائی کرنے بھی نہیں جاتی۔
loading...