محترمہ فاطمہ جناح ؒ کی قبر کھودتے وقت ایسا کیا ہوا کہ 12گھنٹے لگ گئے اور انہیں رات کو کیوں دفنایا گیا ؟
پاکستان میں2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناحؒ اور ڈکٹیٹر فیلڈ مارشل ایوب خان مد مقابل تھے۔ حکمران کنونشن مسلم لیگ کی جانب سے صدر ایوب کو صدارتی امیدوار نامزد کیا گیاتھا جبکہ محترمہ فاطمہ جناحؒ ابتداء میں اس نامزدگی پر آمادہ نہ تھیں لیکن حِزب مخالف کی سیاسی پارٹیوں کے اصرار پر انہوں نے ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب لڑنے کی حامی بھرلی حزب مخالف کے سیاستدانوں کو اس بات کا مکمل یقین تھا کہ محترمہ کامیاب ہوں گی، لیکن الیکشن کمیشن کے مطابق صدر ایوب کامیاب قرار دیے گئے۔ غالباً حکومت اور محترمہ مِس
غالباً حکومت اور محترمہ مِس فاطمہ جناح کے درمیان انہی کشیدگیوں کی وجہ سے انتقال کے بعد مزارِ قائد کے احاطے میں دفن کیے جانے کی ان کی خواہش کے باوجود کوشش یہ ہوتی رہی کہ انہیں کراچی کے قدیم میوہ شاہ قبرستان میں دفن کیا جائے۔ اس حوالے سے آغا اشرف اپنی کتاب ”مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح“ مطبوعہ بار اوّل 2000 کے صفحہ نمبر 184 پر لکھتے ہیں: ‘محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی زندگی میں یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ مرنے کے بعد انہیں قائد اعظم کے پاس دفن کیا جائے۔ اب محترمہ فاطمہ جناح کی وفات کے بعد یہ مسئلہ پیش آیا کہ انہیں کس جگہ دفن کیا جائے۔ بقول مرزا ابو الحسن اصفہانی صاحب اس وقت کی حکومت محترمہ کو میوہ شاہ قبرستان میں دفنانا چاہتی تھی (ایم اے ایچ اصفہانی انٹرویو 14 جنوری 1976 کراچی) جس کی مخالفت کی گئی اور کمشنر کراچی کو متنبہ کیا گیا کہ اگر محترمہ فاطمہ جناح ؒکو قائد اعظم کے مزار کے قریب دفن نہ کیا گیا تو بلوہ ہو جائے گا۔ ‘یہ فیصلہ تو ہو گیا کہ محترمہ فاطمہ جناح کو بلوے کے خدشے کے پیشِ نظر مزار قائد کے احاطے میں دفن کیا جائے، انہیں قائد اعظم کے مقبرے کے قریب دفن کرنے کے لیے کمشنر کراچی نے ان کے خاندان کے افراد اور بانی پاکستان کے پرانے ساتھیوں سے مشورہ کیا، اور پھر حکومت سے رابطہ قائم کیا۔حکومت نے رات دیر گئے مادرِ ملت کو قائد اعظم کے پاس دفن کرنے کا فیصلہ کیا۔ کمشنر کراچی نے اس فیصلے سے ایم اے ایچ اصفہانی کو آگاہ کر دیا۔ ‘مادر ملت کی قبر قائد اعظم کے مزار سے ایک سو بیس فُٹ دور بائیں جانب کھودی گئی۔ قبر ساڑھے چھ فٹ لمبی اور تین فٹ چوڑی تھی۔زمین پتھریلی تھی اس لیے گورکنوں کو قبر کھودنے میں پورے 12 گھنٹے لگے، جبکہ بعض اوقات انہیں بجلی سے چلنے والے اوزاروں سے زمین کھودنی پڑتی۔‘بیس گورکنوں کی قیادت ساٹھ سالہ عبدالغنی کر رہا تھا، جس نے قائد اعظم، لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر کی قبریں تیار کی تھی۔میت کو کندھوں پر اٹھایا گیا تو ہجوم نے مادرِ ملت زندہ باد کے نعروں کے ساتھ آگے بڑھنا شروع کر دیا۔‘جنازے کے پیچھے مرکزی حکومت اور صدر ایوب کے نمائندے شمس الضحیٰ وزیر زراعت خوراک، بحریہ کے کمانڈر انچیف ایڈمرل ایم احسن، دونوں صوبوں کے گورنروں کے ملٹری سیکریٹری، کراچی کے کمشنر، ڈی آئی جی کراچی، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اور تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما سر جھکائے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے۔
loading...