پاکستان میں دھوکہ دہی اور بد عنوانی اپنے عروج پر ہے جس کا جو جی چاہے عوام کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا. پیٹرول پمپس میں آپ جائیں اور لٹیں نہ ایسا سوچنا بھی دشوار ہو گیا ہے. موٹر سائیکل سے لے کر بڑی کار تک، رکشے سے لے کر ٹرک تک سب سے سب پیٹرول پمپس کے ستائے ہوئے ہیں. ان چمکتے دمکتے پیٹرول پمپس میں چوری کا دھندا عروج پر ہے. پیٹرول ڈلوانے والے ہوں یا پھر ڈیزل کے خریدار سب کے سب یہاں لٹتے ہیں. پیٹرول پمپ مالکان کی بے رحم چھری ہر ایک کے گلے پر چلتی ہے اور اس کالے دھندے میں ان کے شریک جرم سرکاری افسران تو ہوتے ہی ہیں ساتھ ہی ساتھ مختلف آئل کمپنیز کے ملازمین بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں.پیٹرول پمپس مالکان کی جعل سازیوں کے
جعل سازیوں کے بے شمار طریقے ہیں. دولت کی ہوس کے ان پچاری پیٹول پمپس مالکان نے اپنے یونٹس مین ہیر پھیر کا ایسا بندوبست کر رکھا ہے کہ عام خریدار اس کو سمجھ ہی نہیں پاتا. پیٹرول مالکان کی ایک چوری پیٹرول یونٹس کی اسمبلی کے ذریعے کی جاتی ہے،جہاں پیٹرول یونٹ کی فی لیٹر قیمت میں 1 سے 5 وشاریہ سی سی ہیر پھیر کیا جاتا ہے جس سے فی لیٹر ایک سے ڈیڑھ روپے کی بچت ہوتی ہے. اس چوری میں میٹر اس طریقےسے ریورس ہوتا ہے کہ ہر 100 لیٹر پر پیٹرول پمپ مالک کو 3 لیٹر کے اضافی پیسے مل جاتے ہیں اور عام طور پر ایک پیٹرول پر 4 یونٹس لگے ہوتے ہیں جس کا مقصد 8 نیوزل سے پیٹرول پمپ مالکان کو اس چوری سے بآسانی 35520 روپے کی بچت ہوتی ہے. اسے ماہانہ کے حساب سے دیکھا جائے تو 10 لاکھ 65 ہزار 600 روپے بآسانی طوری کی مد میں بچ جاتےہیں. ان پیٹرول پمپس پر چوری کیلئے سائبر طریقوں کو استعمال بھی ہوتا ہے. کمپیوٹرائزڈ چوری میں سافٹ وایئر کے ذریعے یونٹ کے اعدادوشمار میں ہیر پھیر کر دیا جاتا ہے جس کے بعد 100 روپے لیٹر پر اسکرین 100 روپے ہی ظاہر کرے گی جس سے انھیں فی لیٹر 15 سے 16 روپے تک کی بچت آسانی سے ہو جاتی ہے جبکہ خریدار کی گاڑی کا دنوں میں ستیاناس ہو جاتا ہے.چور پیٹرول پمپ مالکان کے ملازم بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں.وہ پیٹرول ڈلوانے والے صارفین شہریوں کو مختلف طریقوں سے لوٹے ہیں. عام طور پر صارف جب پیٹرول ڈلوانے کیلئے آتا ہے تو ایک ہیلپر اسے باتوں میں لگانے کی کوشش کرتا ہے جبکہ دوسرا پیٹرول پمپ ملازم اس دوران میٹر میں پیر پھیر کرتا ہے اور پیٹرول کی مقدار رقم کے مقابلے میں کم ڈالتا ہے. عموماً پیٹرول پمپ ملازمین چھوٹی رقم کا پیٹرول ڈلوانے والے صارف کی گاڑی کو فیول دینے کے بعد میٹر کو آٹو میٹک طریقے سے زیرو نہیں کرتے بلکہ اگلے خریدار کو مینول طریقے سے پیٹرول کی فلنگ شروع کر دیتے ہیں اور چیٹنگ کیلئے بھی دو افراد مامور ہوتے ہیں. ایک ملازم پیٹرول ڈلوانے والے کو باتوں میں لگاتا ہے جبکہ دوسرا میٹر میں ہیر پھیر کرتا ہے.مثال کے طور پر کسی نے 200 روپے کا پیٹرول دلوانا ہے تو اسے پچھلے صارف کے 30 روپے سے بغیر 0 کیے میٹر پیٹرول کی فراہمی کی جاتی ہے جس سے 200 روپے دینے کے باوجود اس شہریوں کی گاڑی میں پیٹرول 200 روپے کا نہیں ڈالا جاتا. حیرانگی کی بات یہ ہے کہ تمام آئل کمپنیوں نے عوام کو دھوکہ دہی سے بچانے کیلئے افسران بھی تعینات کر رکھے ہیں جبکہ ان چوروں کی پے در پے وارداتوں اور انکی رپورٹس کے بعد خصوصی موبائل وینزبھی تیار کر رکھی ہیں جو اچانک چھاپے مار کر پیٹرول پمپ سے فراہم کرنے والے۔ایندھن کی معیار اور مقدار چیک کرتی ہے جس کے بعد انھیں کلین چٹ کا سرٹیفیکیٹ دینا ان کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن ان افسران کو بھی رشوت کے روپوں کی چمک نے اندھا کررکھا ہے.ہمیشہ ڈیزل ڈلوانے سے پہلے میٹر چیک کرلیں کہ وہ زیرو پر ہے یا نہیںموٹر سائیکلز والے حضرات پیٹرول ڈالنے کو یہ بات پہلے ہی بتا دیں کہ وہ پیٹرول ڈالتے وقت نوزل کواتنا اوپر رکھے کہ وہ ٹنکی سے اوپر ہو اور اس میں پٹرول ٹنکی میں گرتا ہوا نظر آئے. ہمیشہ 100، 200، 300 اس طرح کے راؤنڈ فگرز میں پٹرول ڈلوانے کی بجائے 130، 270، 60 روپے اس طرح کی مقدار کا فیول ڈلوائیں. کوشش کریںکہ فیول ڈالنے کے بعد میٹر پر اس کی مقدار اور قیمت ضرور دیکھ لیں. بڑی گاڑیوں والے حضرات پو اپنی گاڑی کی ایوریج کا علم ہونا چاہیئےاگر کسی پیٹرول پمپ کے متعلق آپ کا شک ہے کہ وہ پوری مقدار فراہم نہیں کر رہا تو ایندھن ڈلوانے کے بعد میٹر پر گاڑی کی رننگ چیک کر لیں. اگر اگلی دفعہ کسی دوسری جگہ سے پٹرول ڈلوائیں اور گاڑی پمپس پر موجود افسران کو شکایات کر کے تنگ آ چکے ہیں اور ان کی کوئی شنوائی نہیںہو رہی. ان کو چاہیئے کہ انٹر نیٹ پر تما پیٹرول فراہم کرنے والی کمپنیوں نے شکایت کیلئے ہیڈ آفس کے ای میل ایڈریس اور فون نمبر دیئے ہوتے ہیں. ان پر اب پمپس کی شکایات ریکارڈ کروائیں. جب عوام کی طرف سے بار بار شکایات کی جائیں گی تو مجبوراً تیل فراہم کرنے والی کمپنیوں کو عملے کا قبلہ درست کرنا پڑے گا.
loading...