میں نے ہیجڑے کے پیچھے اپنی انتہائی حسین گرل فرینڈ چھوڑ دی


طوفانی ہواؤں کے شور میں ، جب میں نے اس سے پوچھاکہ کیا اسے کبھی کسی سے محبت ہوئی ؟ وہ ہنس پڑا، کہنے لگا ، محبتوں کے جلو میں ، میں پیدا ہوا تھا اور انہی کے درمیان مروں گا۔اس نے مجھے اپنی کہانی سنائی ۔ اس نے کہا
جس محلے میں اس نے ہوش سنبھالا، وہاں کے لوگ غیر معمولی طور پر ایک دوسرے سے محبت کرنےوالے تھے ۔ساتھ جڑے گھروں میں رہنے والے ہم تین بچّے ایک دوسرے کے ساتھ کھیل کود کر بڑے ہوئے۔ میں عبد الحمید ، عروسہ محبوب اور تیسری یا تیسرا راحت شمیم ۔ راحت ہیجڑا تھا ۔بچپن میں جب ہم ساتھ کھیلا کرتے تو ہمیں مردوزن کی تفریق کا بھی علم نہ تھا۔ ہم تینوں بہت اچھے ماں باپ کی اولاد تھے ۔میں اور عروسہ ہم عمر تھے۔ راحت ہم سے 2برس چھوٹا تھا۔ جب راحت پیدا ہوا تو میرے اور عروسہ کے والدین نے یہ فیصلہ کیا کہ نئے مہمان کو کبھی یہ احساس نہ ہونے دیا جائے گا کہ اس میں کوئی کمی ہے ۔ اپنے اس عہد پر وہ قائم رہے ۔ مجھے اور عروسہ کو خاص طور پر راحت سے مانوس کرایا گیا ۔ ہم دونوں کا ہاتھ پکڑ کر اس نے چلنا سیکھا۔ سکول میں کوئی بچّہ اسے چھیڑتا تو ہم دونوں اس کا دفاع کرتے ۔ ان دنوں دنیا کی ہر خوشی ہمیں میسر تھی لیکن کب تک؟ ایک روز ہمیں بڑا ہونا تھا۔
زمانے کے تلخ حقائق سے نبرد آزماہونا تھا ۔ راحت شمیم ایک بے حد سلجھا ہواشخص تھا ۔ اس کی شخصیت میں نفاست تھی ۔ شروع سے اس نے لڑکوں کے کپڑے پہننا پسند کیے۔ وہ لڑکوں ہی کی طرح بات کرتا ۔ تیسری جنس کے اکثر لوگوں کے برعکس وہ لچکتا نہ ٹھمکتا ۔۱پنے لیے وہ مذکر کا صیغہ استعمال کرتا ۔ تیرہ چودہ ہ برس کی عمر میں جب لڑکپن اور نوجوانی کازمانہ شروع ہوا توآہستہ آہستہ میرے اور عروسہ کے میل جول پر ایک غیر اعلانیہ پابندی عائد ہو گئی ۔ وہ دوپٹہ لینے لگی ۔ سکول میں البتہ ملاقات ہوجاتی ۔ راحت پرایسی کوئی پابندی عائد نہ کی گئی ۔ آدھا وقت وہ میری معیت میں گزارتا اور باقی آدھا عروسہ کے ساتھ ۔ راحت کو تصاویر بنانے کو شوق تھا ۔ہر وقت وہ عروسہ اور میرے ساتھ تصاویر بناتا رہتا۔ ہم تینوں کے موبائل ان تصاویر سے بھر ے پڑے تھے ۔ وقت گزرتا گیا۔ہم تینوں نے ماسٹرز کر لیا ۔ مجھے ایک معقول نوکری مل گئی ۔ عروسہ کو نوکری کرنا ہی نہ تھی۔عروسہ اور میرے والدین ہماری شادیوں کے لیے فکر مندہوئے ۔ اگرمیری اور عروسہ کی بات چلی تو یہ فطری تھا۔ اس سے زیادہ موزوں رشتہ اور ہو ہی نہ سکتا
گھر کی بات گھر میں ہی رہ جاتی۔ میں نے انکار کر دیا اور اس نے بھی ۔ اپنے اپنے والدین کو ہم نے بتایا کہ ایسی نظر سے ہم نے کبھی ایک دوسرے کو دیکھا ہی نہیں ۔ میری طرف سے انکار کے بعد عروسہ کا ایک اوراچھا رشتہ آیا۔ اس نے ہاں کر دی ۔ چٹ منگنی پٹ بیاہ ۔ وہ ہمیں چھوڑ کر چلی گئی۔ محلہ جیسے ویران سا ہو گیا۔ میں تو اداس ہوا ہی ، چند دنوں کے لیے راحت تو جیسے بستر پہ لگ گیا۔ راحت تو ہیجڑا تھا۔ اب یہ میری شادی کا مرحلہ تھالیکن اس سے پہلے ہی ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔عروسہ کے شوہر نے اس کے موبائل فون میں راحت اور عروسہ کی تصاویر دیکھ لیں۔ اکثر جگہ پر دونوں مسکرا رہے تھے ۔ راحت ہمیشہ لڑکوں کے سے کپڑے پہنتا ، لڑکوں جیسے بال بناتا ۔ عروسہ کے شوہر نے اسے اس کے ماں باپ کے گھر بٹھا دیا۔ وہ لاکھ چیخی چلائی کہ راحت تو ہیجڑا ہے ۔ اس کے شوہر نے کہا،۔
ہیجڑا نہیں ، یہ لڑکا دکھائی دیتا ہے ۔ عروسہ کے والدین نے بھی داماد کو سمجھانے کی کوشش کی ۔ اس نے کہا،میں پاگل نہیں۔ اگر یہ ہیجڑا ہے تو میرے سامنے ہیجڑوں کی طرح ناچ کر دکھائے۔ بات بگڑتی چلی گئی ۔ اب اسے کون سمجھاتا کہ راحت ہیجڑاہونے کے باوجود شروع ہی سے لڑکوں کی طرح رہا ہے ۔ آخر عروسہ کے گھر جرگہ بیٹھا ۔ اس کا شوہر بھی وہاں موجود تھا، جب اچانک راحت وہاں آیا۔ سب نے اپنی انگلیاں دانتوں میں دبا لیں ۔ اس نے لڑکیوں کے کپڑے پہن رکھے تھے۔ خوب میک اپ کر رکھا تھا اور اس کی چال میں نزاکت تھی ۔ اس سے پہلے کہ کوئی کچھ کہتا ، اس نے اپنے موبائل پر گانا لگایا اور ناچنے لگا۔ ایسا ناچا کہ پیشہ ور ہیجڑے بھی کیا ناچتے ہوں گے ۔ ناچ ناچ کر وہ پاگل ہو گیا۔ سب پتھر کی طرح ساکت بیٹھے تھے۔ آخر موبائل خاموش ہوا تو اس نے عروسہ کے شوہر سے کہا: جیجا جی!میں جنت کی چڑیا ہوں اور عروسہ تو میری سہیلی ہے ۔ غصہ جانے دیجیے ۔ وہ ہنس پڑا اور عروسہ کو ساتھ لے گیا ۔ وہ تو چلے گئے ۔ اس روزمحلے میں سب دیر تک روتے رہے ۔ شروع سے راحت لڑکوں کی طرح ہمارے ساتھ رہا تھا ۔ حالات کے جبر نے جب اسے ناچنے پر مجبور کیا، تو ہمارے دل زخمی ہو گئے ۔ میں راحت کے گھر گیا ۔ وہ میرے کندھے پہ سر رکھ کے روتا رہا۔ صدمے اور غم کی شدت میں اس نے کہا : اگرمیں مرد ہوتا تو عروسہ کو کسی اور سے شادی نہ کرنے دیتا۔ مجھ سے زیادہ کسے علم ہوتا۔ اندر ہی اندر وہ عروسہ سے محبت کرنے لگا تھا ۔ میں اسے تھپکتا رہا ؛حتیٰ کہ روتے روتے وہ سو گیا۔۔
پھر میں واپس گھر آیا۔ اب مجھے اپنا ذاتی دکھ منانا تھا۔ ”ذاتی دکھ؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔” تمہارا کیا ذاتی دکھ ؟‘‘ خاموشی سے وہ سوچتا رہا۔ برف کا طوفان تیز ہو چکا تھا ۔ اس نے کہا ” میں بھی عروسہ سے محبت کرتا تھااور وہ مجھے چاہتی تھی ۔ ہم دونوں نے شادی نہ کرنے کا فیصلہ راحت کی وجہ سے کیا۔ اگر ہم آپس میں شادی کر لیتے تو راحت صدمے سے مر ہی جاتا۔ ہم نے شروع سے اسے برابری کا درجہ دیا تھا۔ اگر ہم شادی کر لیتے تو وہ کہتا کہ مرد اور عورت ہونے کی وجہ سے ہم اپنی خوشیاں پانے کے لیے آزاد تھے اور ہیجڑا ہونے کی وجہ سے اس کے نصیب میں کوئی خوشی نہیں ۔دوستی قربانی مانگتی ہے ، میرے یار!‘‘
loading...